Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

گولی اس کے بازو کو چھو کر گزر گئی تھی۔ معید پری کی کال کرتے ہی آ گیا تھا اور اس نے طغرل کو ایک لمحہ بھی من مانی کرنے کا نہیں دیا اور سیدھا قریب ہی واقع پرائیویٹ ہسپتال لے گیا جہاں فوری اس کی ٹریٹمنٹ کی گئی تھی پھر ڈریسنگ کرکے کچھ دیر بعد وہ گھر آ گئے تھے معید دیکھ رہا تھا طغرل اسٹریس میں ہے۔ گہرے زخم اور خون بہنے کی وجہ سے اس پر نقاہت طاری تھی۔
اس کی اس حرکت پر دل میں بھرے غصے پر وہ قابو پائے نرمی سے پیش آ رہا اور پھر اس کے سونے کے بعد وہ اس پر کمبل ڈالتا ہوا بیڈ روم سے باہر آ گیا۔
”معید بھائی! طبیعت کیسی ہے اب طغرل بھائی کی؟ کوئی خطرے کی بات تو نہیں،ڈاکٹر نے کیا کہا ہے؟“ لاؤنج میں عائزہ اور پری بیٹھی تھیں،عائزہ کھڑی ہو کر فکر مندی سے بولی۔
”کچھ لیا دیا آگے آ گیا جو بلٹ اس کے بازو کو ٹچ کرتی گزر گئی ہے وگرنہ بہت برا ہوتا ہے،بلٹ سینے یا گردن میں بھی لگ سکتی تھی۔


“ وہ صوفے پر بیٹھتا ہوا سنجیدگی سے بتانے لگا۔
”اللہ کا بہت شکر و احسان ہے جو ایسا کچھ نہیں ہوا۔“
”سب سے زیادہ اللہ نے یہ مہربانی کی کہ دادی جان گھر میں نہیں تھیں اور نہ ہی پاپا اور ممی اگر ان میں سے کوئی گھر میں ہوتا تو مسئلہ بن جاتا۔“ خاموش گم صم بیٹھی پری نے جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔
”نانی جان،ماموں و ممانی کو حقیقت مت بتانا کہہ دینا وہ گھر میں آیا تو چوٹ لگی ہوئی تھی،طغرل خود ہی کوئی بہانہ بنا دے گا۔
”جی ٹھیک ہے معید بھائی! کھانا لگاؤں آپ کیلئے رات ہو گئی ہے۔“
”نہیں عائزہ! بھوک نہیں لگ رہی ہاں کافی لے آؤ۔“
”جی ابھی لاتی ہوں۔“ وہ آگے بڑھی۔
”ارے عائزہ! تم دونوں نے بھی کھانا نہیں کھایا ہو گا،تم دونوں کھا لو۔“ وہ چونک کر دونوں کو دیکھتا ہوا گویا ہوا۔
”بھوک تو ہم دونوں کو بھی نہیں لگ رہی ہے میں ایسا کرتی ہوں کافی کے ساتھ بسکٹ اور ڈرائی فروٹ لے آتی ہوں۔
“ عائزہ نے پری کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،پری نے بھی کھانے سے انکاری انداز میں گردن ہلا دی تھی،عائزہ وہاں سے چلی گئی۔
”شروع سے بتاؤ مجھے کیا ہوا تھا کیوں طغرل نے ایسی جان لیوا حرکت کی؟ تم دونوں کا پھر جھگڑا ہوا تھا ؟“ معید کے لہجے میں دبیز بے چینی و پریشانی چھپی ہوئی تھی وہ سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھ کر بولا۔
”جھگڑا… ایسی کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ کوئی بھی بات نہیں ہوئی تھی میری ان سے میں یہاں بیٹھی عائزہ سے باتیں کر رہی تھی تب ہی وہ آکر بھونڈا مذاق کرنے لگے تھے۔
“ وہ تفصیل بتاتی ہوئی بولی۔
”وہ سیریس ہے پری! تم اس کے جذبات کو کب سمجھو گی؟“ معید نے اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے رنجیدگی سے کہا۔ پری کے چہرے کی رنگت اڑی ہوئی تھی ایک عجیب سا ہراس اس کی چمک دار براؤن آنکھوں میں پھیلا ہوا تھا،طغرل کی اس درجہ کی انتہا پسندی نے اس کو نئے اضطراب میں مبتلا کر دیا تھا۔
”پلیز معید! میری مشکل زندگی کو مزید کٹھن راہوں پر مت ڈالو،یہ سب تمہاری ہی وجہ سے ہوا ہے۔
”میری وجہ سے… کیوں؟“ وہ متعجب ہوا۔
”تم نے ہی کچھ عرصہ قبل ان کو مجھ پر ترس کھانے کا مشورہ دیا تھا۔“
”ترس کھانے کا نہیں شادی کرنے کا۔“ وہ جزبز ہوا۔
”ایک ہی بات ہے کوئی مجھ سے ترس کھا کر ہی شادی کر سکتا ہے۔“ اس کے لہجے میں سفاکی آمیز طنز در آیا تھا۔
”یہ تمہاری سوچ ہے صرف،تم اپنا اعتماد کھو بیٹھی ہو وگرنہ تم میں ایسی کوئی کمی نہیں ہے جو تم پر ترس کھایا جائے۔
”ان باتوں کو تم نہیں سمجھ سکتے؟“
”ان بے معنی باتوں کو میں سمجھنا بھی نہیں چاہتا،تم صرف اپنے بارے میں سوچو کب تک اس گھر میں بیٹھی رہو گی نانی جان آج کل اسی فکر میں ہیں کہ جلد از جلد کوئی رشتہ آئے تو وہ تم کو رخصت کریں۔“
”مجھے کسی سے بھی شادی نہیں کرنی۔ ہزار بار کہہ چکی ہوں میں یہ بات۔“ اس کا دل پہلے ہی بھرے بادلوں کی طرح تیار تھا معید کی باتوں سے وہ صبر و برداشت کھو بیٹھی اور رونے لگی۔
”اس طرح رو رو کر تم حقیقت سے فرار حاصل نہیں کر سکتی ہو پری! حقیقت کو تم کھلے دل و دماغ سے مانو۔ میں تمہارا بھائی ہوں،دوست ہوں،تمہاری بہتری و خیر خواہی چاہتا ہوں۔“ وہ اس کے قریب بیٹھ کر سر پر ہاتھ رکھتا ہو شفقت بھرے انداز میں بولا۔
”طغرل کے جذبوں میں کھوٹ نہیں ہے۔ بے حد پرکھا ہے میں نے وہ تم کو دل و جان سے چاہتا ہے،تمہارے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کرتا وہ۔
پہلے تو میں اس کے احساسات و جذبات کو وقتی لگاؤ ہی سمجھتا تھا لیکن اب اس کے جذبوں کی سچائی سے انحراف نہیں کرتا۔“
”میری بات سمجھنے کی سعی کرو معید! یہ سب اتنا آسان نہیں ہے جتنا دکھائی دے رہا ہے۔“ وہ آنسو صاف کرتی آہستگی سے گویا ہوئی۔
”میں جانتا ہوں اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ مذنہ آنٹی ہیں،وہ اس رشتے کی سب سے بڑی مخالف ہیں لیکن طغرل ان کے دباؤ میں آنے والا بندہ نہیں ہے وہ تمہاری خاطر ان کو چھوڑ دے گا۔
“ وہ پری کو راضی کرنے کے چکر میں خاصا جذباتی ہو گیا تھا۔
”اور پھر کچھ عرصہ بعد ان کی خاطر مجھ کو بھی… ہے نا؟“
”ہرگز نہیں وہ طغرل ہے… مضبوط اعصاب و ذہن کا مالک وہ تم کو حاصل کرنے کیلئے مرا جا رہا ہے تو پھر تم کو چھوڑنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“ وہ پورے انہماک سے اس کو سمجھانے کی سعی کرنے لگا۔
###
”کتنا ٹائم لو گے؟“ وہ اس کی طرف دیکھتی ہوئی گویا ہوئی۔
”زیادہ نہیں۔“ کار ڈرائیو کرتے ہوئے اس نے عادلہ کی طرف دیکھا۔
”ہوں،بات ہی ایسی ہے شیری! ہم اس معاملے کو ٹائم بھی نہیں دے سکتے جتنا ٹائم ضائع ہوگا اتنا ہی پرابلم کری ایٹ ہوگا۔“
”تم فکر نہیں کرو،ایسا کچھ نہیں ہو گا اب تم جلدی سے اپنے بیڈ روم میں جا کر سو جاؤ،تمہاری ٹینشن بہت جلد دور ہو جائے گی۔“ اس نے گیٹ کے سامنے کار روکتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
”اس طرح باتوں سے دور نہیں ہو گی۔“ اس نے پرس اٹھاتے ہوئے کہا۔
”میری باتوں پر یقین کرو سب ٹھیک ہو جائے گا… اوکے۔ بائے اینڈ ٹیک کیئر سویٹی!“ اس نے گہری نگاہوں سے اس کو ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا۔
عادلہ اندر جاتی ہوئی بے حد مسرور تھی شیری نے آج کچھ زیادہ ہی اس پر التفات برتا تھا چند سرد و کڑوے جملوں کا تبادلہ ان کے درمیان ضرور ہوا تھا اور جن پر اس نے بعد میں معافی بھی مانگ لی تھی۔
وہ لاؤنج سے گزری تو اندر صوفوں پر آرام دہ انداز میں بیٹھی آنٹی اور ممی نظر آ رہی تھیں وہ خود کو بے حد تھکا ہوا محسوس کر رہی تھی اس نے نگاہ بچا کر وہاں سے گزر جانا چاہا تھا مگر گلاس ڈور سے صباحت اس کو دیکھ چکی تھیں انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اس کو اندر بلایا۔
”یہ کیا طریقہ ہے عادلہ! تم سارا دن غائب رہیں اور اب شام ڈھلے آئی ہو تو ہمارے پاس بیٹھنا بھی گوارا نہیں ہے تم کو۔
“ انہوں نے سخت لہجے میں سرزنش کی۔
”سوری ممی! میں بہت تھک گئی ہوں بیٹھنے کی ہمت نہیں ہے آرام کرنا چاہتی ہوں۔“ اس کی عجیب سی کیفیت ہو رہی تھی۔
”کیا ہوا ہے طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟“ زینب نے متفکر انداز میں کہا۔
”جی،بس میں آرام کرنا چاہتی ہوں بہت تھکن محسوس ہو رہی ہے۔“ وہ کہتی ہوئی عجلت میں وہاں سے نکل گئی۔
”دیکھا تم نے عادلہ کی ہٹ دھری،چوری اور سینہ زوری۔
اس بدکار شیری سے ملنے گئی تھی کچھ بتاتی تو سہی وہ شادی کیلئے راضی ہوا یا نہیں؟“ صباحت غصے سے بڑبڑانے لگی تھیں۔
”وہ خود بہت ڈپریسڈ ہے آپی! اس کا چہرہ بتا رہا ہے وہ کسی تکلیف میں مبتلا ہے،شاید شیری نے تعاون نہیں کیا۔“
”جو لڑکیاں اپنی نسوانیت کی حفاظت نہیں کرتیں وہ اسی طرح سے ذلیل و خوار ہوتی ہے وقت پرہوش کے ناخن نہیں لئے اس نے،اب خود بھی انگاروں پر لوٹ رہی ہے اور ساتھ مجھے بھی گھسیٹ لیا۔
”سمجھ نہیں آتی مجھے آپ کو کس طرح دلاسہ دوں آپی! بہت پریشانیوں میں گھر گئی ہوں،ایک طرف عائزہ شادی کے چند دنوں بعد ہی میکے آ بیٹھی ہے تو دوسری پریشانی عادلہ کی اس حرکت نے پیدا کر دی ہے۔“
”دن بہت تیزی سے گزر رہے ہیں شیری اپنی غلطی کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے۔ پھر کوئی ایسی لیڈی ڈاکٹر بھی نہیں مل رہی جس پر اعتماد کیا جائے۔
”اتنا ڈپریسڈ مت ہو آپی! میں کوشش میں ہوں یہ معاملہ آگے نہیں بڑھے،میری میڈ گاؤں سے آ جائے وہ ایک تجربہ کار مڈ وائف کو جانتی ہے۔“
”ارے تو بلواؤ نا اس کو کب آئے گی وہ؟“ صباحت ایک دم ہی پر جوش انداز میں گویا ہوئیں۔
”دو چار دن میں آ جائے گی فون آیا تھا اس کا۔“
”ہوں… تم اس لاڈ صاحب سے تو میری بات کراؤ،میں معلوم تو کروں اس سے میری عائزہ،کو اس نے سچ بولنے کی سزا سوکن کے روپ میں دی ہے کوئی ایسا بھی کرتا ہے کیا؟“ ان کی دوسری دکھتی رگ بھڑک اٹھی۔
”فاخر کال ریسیو نہیں کر رہا،شادی کی اطلاع دینے کے بعد اس نے پھر سے کوئی رابطہ نہیں کیا،وہ ہم سے بات ہی نہیں کرنا چاہتا۔۔“
”اپنی نئی نویلی دلہن کے ناز نخروں سے فرصت کہاں مل رہی ہو گی اسے ہاہا… سوکن کا جلاپا میری عائزہ کے نصیب میں بھی لکھا تھا؟“ انہوں نے بے حد درد بھرے انداز میں آہ بھری۔
”بھائی او بھابی کو دیکھو ذرا کس طرح لندن جا کر بیٹھ گئے ہیں جیسے شادی کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہوں اس طرح گم ہیں اپنی خوشیوں میں جیسے پیچھے کسی کو چھوڑ کر ہی نہ گئے ہوں۔
“ صباحت کے جھنجلاہٹ بھرے انداز پر زینب مسکرا کر بولی۔
”گئے بھی تو شادی کے طویل عرصہ کے بعد پہلی مرتبہ ہیں اس حساب سے تو یہ ان کا ہنی مون پریڈ ہی ہے۔“
”تم میرا دل مت جلاؤ زینی!“
”میں مذاق نہیں کر رہی،سچ ہی تو کہہ رہی ہوں آپ میرے بیڈ روم میں جا کر ریسٹ کریں میں دیکھتی ہوں ملازمہ ڈنر میں کیا بنا رہی ہے۔“
”ارے بیٹھ جاؤ میں کھانا کھا کر نہیں جاؤں گی گھر پر اماں جان نہیں ہیں وہ کل تک کیلئے آصفہ آپا کے ہاں گئی ہیں عائزہ گھر میں ہے۔
”اچھا… پری نہیں ہے کیا گھر میں؟“ وہ بیٹھتے ہوئے استفسار کرنے لگی۔
”وہ کہاں جائے گی منحوس،گھر میں ہی ہے وہ۔“ قبل اس کے کہ زینب کچھ کہتی بدحواسی انداز میں عادلہ وہاں آئی اور صباحت سے لپٹتی ہوئی درد بھرے لہجے میں بولی۔
”ممی… ممی مجھے بچا لیں… میں مر رہی ہوں۔“
”عادلہ… کیا ہوا ہے میری جان۔“ وہ دونوں ہی اس کو سنبھالنے کی سعی میں لگی تھی وہ سرد موسم میں پسینہ پسینہ ہو رہی تھی اور شدید ترین درد سے مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی۔
صباحت نے ان کو چیختے چلاتے درد سے دیکھ کر آگے بڑھ کر گلاس ڈور بند کرکے پردے ڈال دیئے تھے۔
”اے میرے اللہ! میری عزت اب صرف تیرے اختیار میں ہے تو چاہے وہ کام بھی ممکن ہو جائے جو ہمارے لئے ناممکن بنا ہوا ہے۔“
###
یہ کیا حرکت تھی یار! ایک بے کار سی محبت کیلئے تم ایسی ناقابل یقین حرکت کرو گی،میں یقین نہیں دلا پا رہا ہوں خود کو۔
“ اس کے جاگنے کے بعد لائٹ سا ڈنر کروا کر معید اس کے قریب ہی بیٹھتا ہوا خفگی بھرے انداز میں گویا ہوا وہ خاموش رہا تھا۔
”جب تم کو سمجھا دیا اس بے فیض محبت سے کچھ بھی حاصل نہ کر پاؤ گے تو پھر کیوں دیوانے ہوئے جا رہے ہو اور آج تم نے اس دیوانگی کی حد ہی کر دی ہے سوچو ذرا اگر گولی دل میں پیوست ہو جاتی تو کیا ہوتا؟“
”مر جاتا…“ وہ اس کی طرف دیکھ کر زخمی لہجے میں بولا۔
معید اس کے بکھرے لہجے سے اس کی طرف چونک کر متوجہ ہوا اس کے وجیہہ چہرے پر عجیب حزن و سوز پھیلا ہوا تھا۔
”مر جانے کا تم کو رنج نہیں ہے؟“ اس کی جنوں خیزی دیکھ کر معید کی آواز کانپ رہی تھی اور اندر کافی لانے والی پری کمرے کی دہلیز پر آے نہ بڑھ سکی۔ ایک غیر محسوس احساس اس کے دل میں سرائیت کرتا جا رہا تھا اس کی سماعتیں ادھ کھلے دروازے پر گرے پردے کے پار سے آنے والی آوازوں پر لگے ہوئے تھے۔
”اس کے بنا بھی تو زندگی موت جیسی ہی ہو گی یار۔“
”اومائی گاڈ! تم اتنا اس کے عشق میں آگے نکل گئے ہو،تم کو زندگی اور موت میں کوئی فرق محسوس نہیں ہو رہا ہے؟“
”ہاں وہ مل جائے مجھے اور کوئی تمنا نہیں ہو گی پھر زندگی سے۔“ پری سے مزید وہاں کھڑا نہیں ہوا گیا وہ واپس لوٹ گئی۔
”تم نے فیاض ماموں سے بات کی تھی اپنے اور پری کے رشتے کی۔
”ہوں… میں نے ان سے بات کی تھی۔“
”تم نے ان کو یہ بتایا کہ ممانی صاحبہ پری کو نہیں اپنی بھتیجی وانیہ کو اپنی بہو بنانا چاہتی ہیں۔“ وہ حیرانی سے اس کی طرف دیکھتا ہوا پوچھ رہا تھا۔
”معلوم ہے ان کو دادی جان پہلے ہی بتا چکی ہیں۔“ وہ زخم سے اٹھتی ٹیسوں کو برداشت کرتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”نانی جان ماموں کو بتا چکی ہیں… پھر بھی وہ مان گئے اس کو بات؟“ وہ سخت حیران ہو رہا تھا۔
”ہوں… میں بتاؤں گا ابھی سونا چاہتا ہوں۔“ وہ غنودگی بھرے لہجے میں گویا ہوا۔

   1
0 Comments